بیجنگ (لاہورنامہ) امریکہ کے تجارتی نمائندے کے دفتر نے حال ہی میں "ڈبلیو ٹی او میں شامل ہونے کے چین کے وعدوں پر 2023 کی رپورٹ” جاری کی ہے، جس مِیں ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے حوالے سے چین کے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کی کامیابیوں کی نفی کی گئی ہے اور چین کے معاشی اور تجارتی نظام اور پالیسیوں کو عالمی تجارت کے لئے بڑے چیلنجز کے طور پر بتا کر بدنام کیا گیا ہے۔
منگل کے روز چینی میڈیا کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک رپورٹ میں صحیح اور غلط کو ملایا جا سکتا ہے؟ امریکی فریق نے غلط اندازہ لگایا، کیونکہ حقائق بہت واضح ہیں. تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ امریکی رپورٹ میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نے چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت اور اپنے وعدوں کے نفاذ کے لئے جو بنیادی تشخیصی معیار مقرر کیا ہے وہ چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلسٹ مارکیٹ کے معاشی نظام کو مکمل تبدیل کرنا ہے ۔
ساتھ ہی چین سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ امریکہ کی ضروریات کے مطابق ساختی اصلاحات کی جائیں ۔ اس معیار اور ابتدائی نقطہ نظر ہی سے رپورٹ مرتب کرنے والوں کے ارادوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
رپورٹ کے مندرجات کو دیکھا جائے تو واضح ہے کہ امریکہ چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات اور اپنے وعدوں کی تکمیل میں حاصل ہونے والی زبردست پیش رفت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔
رپورٹ میں امریکہ نے چین کے جائز تجارتی اقدامات کو ‘معاشی جبر’ کے طور پر بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا اور امریکی ناکہ بندی اور دباؤ کے جواب میں چین کے اقدامات کو ‘ڈی کپلنگ’ قرار دیا۔ غور کیا جائے تو یہ رپورٹ خود امریکہ کی اپنی غلط کاروائیوں کی عکاسی کر تی ہے۔
امریکہ نے چینی ہائی ٹیک کاروباری اداروں کو دباؤ میں لینے کے لئے مختلف بہانوں کا سہارا لیا اور ایک ہزار سے زائد چینی کمپنیوں کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا ۔ اب تک امریکہ دنیا بھر کے تقریبا 40 ممالک پر یکطرفہ اقتصادی پابندیاں عائد کر چکا ہے جس سے دنیا کی تقریبا نصف آبادی متاثر ہو رہی ہے۔ "سلامتی” کی آڑ میں امریکی حکومت نے معاشی، تجارتی ، سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں "ڈی کپلنگ” کے اقدامات کو جامع طور پر نافذ کیا ہے، جو عالمی معیشت کی بحالی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔
ایک جھوٹ اگر ہزار بار بھی دہرایا جائے تو بھی وہ جھوٹ ہی رہتا ہے ۔ اپنے من پسند معیارات کے ترازو پر جھوٹے اور من گھڑت نظریات کے وزن سے اس سیاسی اور جھوٹی رپورٹ کی نوعیت تبدیل نہیں ہوگی۔ حقائق نے مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ چین نے نہ صرف ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے اپنے وعدوں کی تکمیل کی ہے.
بلکہ ڈبلیو ٹی او کے قوانین کا دفاع کرنے اور عالمی اقتصادی اور تجارتی نظام میں مثبت تبدیلیوں کے فروغ میں بھی ایک بہترین کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ڈبلیو ٹی او کی ڈائریکٹر جنرل ایولا نے کہا ہے ، اپنے جائز حقوق اور مفادات کا دفاع کرتے ہوئے، چین تمام ممبران کے نقطہ نظر سے معاملات کے بارے میں سوچ سکتا ہے ،متعلقہ مسائل سے نمٹ سکتا ہے اور سرمایہ کاری کی سہولت سمیت ڈبلیو ٹی او کے بہت سے مذاکرات کے مثبت نتائج کو فروغ دے سکتا ہے.
یہ حقائق یہ پیغام دیتے ہیں کہ چین کو بدنام کرنے کے بجائے امریکہ میں کچھ لوگوں کو خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔