بیجنگ (لاہورنامہ) کچھ عرصہ قبل وال اسٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ 2008 میں امریکہ اور یورو زون کا اقتصادی حجم تقریباً ایک جیسا تھا لیکن اب امریکہ کی معیشت یورو زون کے حجم کا تقریباً دوگنا ہو گئی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے ان اعداد و شمار کا یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا کہ امریکی معیشت یورپی معیشت سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس رپورٹ پر امریکی ماہر اقتصادیات کرگمین نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بنیادی طور پر ڈالر کے مقابلے میں یورو کی قدر میں کمی کا نتیجہ ہے- 2008 میں ڈالر کے مقابلے میں یورو کی شرح تبادلہ سب سے زیادہ 1.59 تک پہنچ گئی تھی اور 2023 میں یہ شرح 1.05 تک کم ہوئی۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کی جی ڈی پی کے امریکی جی ڈی پی کے تناسب میں گراوٹ دیکھنے کے بعد کرگمین نے اپنے ایک اور مضمون میں لکھا کہ چین کی معیشت سنگین بحران کا شکار ہے۔
جب دوسری معیشتوں پر بات کی جاتی ہے تو دیگر عوامل پر معروضی طور پر غور کیا جاتا ہے اور جب چین پر بات کی جاتی ہے تو فوراً یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ چین کی معیشت گرنے والی ہے ۔ اس موازنے کا مقصد یہ ہے کہ بتایا جا سکے کہ چین دنیا کے لیے ایک "خطرہ” بن جائے گا۔ جب کہ ان بیانات کا حتمی مقصد معاشی نظام کا موازنہ کرتے ہوئے چین کے معاشی نظام کو تبدیل کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چین کی کھپت کی صلاحیت اب بھی بہت بڑی ہے۔ 2023 میں چین کی اقتصادی ترقی میں کھپت کا تناسب 82.5 فیصد بنا۔مزید اہم بات یہ ہے کہ مغرب کی طرح "زیادہ سے زیادہ تر پیسہ کی فراہمی” کے بجائے چین آمدنی کو بڑھانے، سماجی تحفظ کی ضمانت، کھپت کے ماحول کو بہتر بنانے، اور سپلائی سائیڈ کی ساختی اصلاحات پر عمل کرنے، سپلائی کو بہتر بنانے اور مؤثر سرمایہ کاری کو بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اپنے طریقے سے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں چین نے مختلف مشکلات کے خلاف جدوجہد کے عمل میں ترقی حاصل کی ہے۔ مسائل کا سامنا کرنا اور مسائل کو حل کرنا،یہی چین کی اقتصادی ترقی پر اعتماد ہے۔