ٹک ٹاک نے

ٹک ٹاک نے عالمی رائے عامہ پر امریکہ کے کنٹرول کو متاثر کیا ہے،. رپو رٹ

بیجنگ (لاہورنامہ) 13 مارچ کو امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا ، جس کے تحت بائٹ ڈانس کو مجبوراً اپنی ویڈیو ایپ ٹک ٹاک کا کنٹرول چھوڑنا ہوگا ، ورنہ امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ حالیہ برسوں میں، امریکہ اس بات کا ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہا ہے کہ ٹک ٹاک امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، لیکن ٹک ٹاک کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آئی ہے۔ امریکی کانگریس بارہا کہہ چکی ہے کہ "بائٹ ڈانس ایک سوشل میڈیا ہے جسے کمیونسٹ چائنا کنٹرول کرتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟”

عوامی اعداد و شمار کے مطابق ، بائٹ ڈانس عالمی سرمایہ کاروں (60فیصد) ، ملازمین (20فیصد) اور شریک بانیوں (20فیصد) کی ملکیت ہے۔ عالمی سرمایہ کاروں کی فہرست میں کوہلبرگ کرویس رابرٹس، سافٹ بینک گروپ، سیکویا کیپیٹل، جنرل اٹلانٹک اور ہل ہاؤس کیپیٹل گروپ شامل ہیں۔

چینی حکومت یا کسی سرکاری ادارے کے پاس تو کوئی حصص بھی نہیں لہذا ٹک ٹاک پر قابو پانا تو دور کی بات ہے۔ اس کے علاوہ ٹک ٹاک پہلے ہی امریکہ کی ضرورت کے مطابق امریکی صارفین کا ڈیٹا امریکہ کے حوالے کر چکی ہے۔ ٹک ٹاک کے سی ای او سمیت سینئر ایگزیکٹوز بھی مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی پیشہ ورانہ لوگ ہیں۔ ظاہر ہے، چاہے وہ شیئر ہولڈنگ ڈھانچہ ہو، ڈیٹا سیکیورٹی ہو، یا مینجمنٹ ٹیم ہو، ٹک ٹاک ایک قانونی بین الاقوامی نجی انٹرپرائز ہے.

مزید یہ کہ ریسرچ ادارے آکسفورڈ اکنامکس کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2023 میں ٹک ٹاک نے امریکہ میں 70 لاکھ کاروباری اداروں کو اپنی جانب راغب کیا، امریکہ میں کم از کم 2 لاکھ 24 ہزار روزگار کے مواقع پیدا کئے، امریکی چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری مالکان کو 14.7 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کرنے میں مدد دی اور امریکی جی ڈی پی میں 24.2 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا۔

سوال یہی ہے کہ امریکہ اپنی معیشت کو فروغ دینے والی ایک مقبول ایپ کے خلاف کیوں اتنی سنگین پابندیاں عائد کر رہا ہے ؟

پہلی وجہ یہ ہے کہ ٹک ٹاک نے عالمی رائے عامہ پر امریکہ کے کنٹرول کو متاثر کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ٹک ٹاک کے فعال صارفین کی تعداد 17 کروڑ اور دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد فعال صارفین موجود ہیں اور صارفین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹک ٹاک کا انوکھا الگورتھم عام لوگوں کے لیے "آزادی اظہار” کو حقیقت بناتا ہے۔ اگرچہ یہ غیر ارادی ہے،مگر اس نے ماضی میں معلومات، رائے عامہ اور نظریے پر امریکی اور مغربی میڈیا کی اجارہ داری کو توڑا ہے۔

مثال کے طور پر گزشتہ سال امریکی ریاست اوہائیو میں زہریلے کیمیکلز سے بھری مال بردار ٹرین پٹری سے اتر گئی تھی۔امریکی مین اسٹریم میڈیا نے اس حادثے کے ابتدائی مرحلے کو بہت کم کوریج دی اور مقامی لوگ زہریلے کیمیکل کے اخراج کے بعد غیر معمولی حالات خود اپ لوڈ کرتے رہے اور یہ معاملہ پوری دنیا کو پتہ چل گیا۔

ایک اور مثال ،فلسطین اسرائیل تنازعے کے موجودہ دور میں ٹک ٹاک نے عالمی رائے عامہ کا فطری رجحان دکھایا یعنیٰ فلسطین کی حمایت کرنے والی ویڈیوز کے ویوز اسرائیل کی حمایت والی ویڈیوز سے 69 گنا زیادہ ہیں۔ یہاں تک کہ سی این این نے تاریخ میں پہلی دفعہ چینی میڈیا کی آزادی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کی خبریں بلا روک ٹوک نشر کر رہے ہیں۔

درحقیقت ٹک ٹاک کا فلسطین اسرائیل کے مسئلے پر اپنا کوئی موقف نہیں ہے اور وہ امریکی قانون کی پاسداری میں محتاط رہی ہے۔ اگر ٹک ٹاک سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو وہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس نے امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کو سنجیدگی سے لیا ہے اور سچائی کو پھیلانے کے لئے "اسے جانے دیا ہے”، جس سے کچھ مفاد پرست گروہ ناراض ہوئے ہیں۔

دوسری وجہ یہ کہ ٹک ٹاک کو لُوٹنا امریکی مالیاتی بالادستی کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔ اس وقت، ایپل، مائیکروسافٹ اور گوگل سمیت سات بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی مارکیٹ ویلیو مجموعی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے 27 فیصد تک بڑھ چکی ہے.

جو ستمبر 2020 میں امریکی ٹیکنالوجی ببل کے ہائی پوائنٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ سات بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرف سے لانچ کی جانے والی ہائی ٹیک مصنوعات جدید تو ہیں ، لیکن ان کا ابھی تک صحیح معنوں میں اطلاق نہیں ہوا ہے ، اور تصورات کے مجموعے پر انحصار کرنے والے امریکی ٹیکنالوجی ببل کو طویل عرصے تک مارکیٹ توقعات کے مطابق حمایت ملنا مشکل ہے۔

امریکہ کو فوری طور پر ایپلی کیشن سائیڈ پر ایک بڑی پیش رفت کی ضرورت ہے ، اور ٹک ٹاک کی اعلیٰ ترقی اور وسیع اطلاق بلاشبہ اس کی نظر میں ایک بہترین شکار ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ٹک ٹاک طویل عرصے سے ڈاؤن لوڈ کی عالمی تعداد میں پہلے نمبر پر ہے.

جس نے 2022 میں 80 ارب ڈالر اور 2023 میں 110 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔ ٹک ٹاک کے انتظامی امور سنبھالنے کے بعد ، امریکی ٹیکنالوجی اسٹاکز کی پہیلی چپس سے ایپلی کیشنز تک ایک ہمہ جہت ترتیب کو مکمل کرے گی ، امریکی ٹیکنالوجی کے شعبے کی زیادہ بہتر کہانی تیار ہوگی ، اور پھر امریکی کیپٹل مارکیٹ میں مزید سرمائے مسلسل آتے رہیں گے۔

"معاہدہ” نامی ایک چیز جس کی کبھی مغرب نے ایک معیار کے طور پر تشہیر کی تھی ، اسے خود امریکہ اپنی کمزوری کے تناظر میں چھوڑ رہا ہے ۔ اس قسم کی قانون سازی، جو اس منطق پر مبنی ہے کہ "کیونکہ آپ کی اچھی چیز مجھے پسند آئی ہے، لہذا آپ کو اسے مجھے دینا ہوگا”، اگر نافذ ہوگی، تو یہ کھلم کھلا لوٹ مار کے آغاز کے مترادف ہوگا. ظاہر ہے کہ یہ ایک ڈکیتی ہے، لیکن قانون کے بھیس میں ہے۔ اس طرح کی ڈکیتی قزاقوں کے پیدائشی جین کو ظاہر کرتی ہے۔ تاہم، چین کوئی بھیڑ بکری نہیں ہے جسے کوئی اپنی مرضی سے ذبح کر سکے.

امریکی کانگریس کی جانب سے بل کی منظوری کے جواب میں حکومت چین نے فوری ردعمل ظاہر کیا: "متعلقہ فریقوں کو چینی قوانین اور ضوابط پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔” چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گا”۔

چین کے لئے یہ سادہ اور واضح ہے کہ اگر امریکہ کھلم کھلا لوٹ مار میں کامیاب ہو جاتا ہے اور دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کرتے ہیں تو بیرون ملک چینی کمپنیوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کیسے کیا جائے گا؟ اور امریکہ کو غور سے سوچنا پڑےگا کہ منصفانہ طور پر جیتنے کے بجائے اس طرح کی غنڈہ گردی سرمایہ کاری کے ماحول میں بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچائے گی، عمومی بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی نظام کو کمزور کرے گی، اور لامحالہ خود امریکہ پر اثر انداز ہوگی.