اسلام آباد (لاہورنامہ) چین اور پاکستان کے ماہرین نے سی پیک کے تحت کینولا کی کاشت کے لئے جد ید ہا رویسٹینگ مشینری نے متعارف کروا دی-
اس حوا لے سے کسانوں کی آگاہی کےلیے بھکر کی تحصیل کلور کوٹ میں ایو ل سٹرٹس سیڈز اور چینی کی و وہان چنگ فاشینگ سیڈ کمپنی کے تعاون سے ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیاگیا اور کسانوں ، ماہرین اور میڈیا کو چین سے درآمد کی گئی مشین سے کینولا کی کٹائی کا عمل دکھایاگیا.
جبکہ کینولا کی معیار ی فصل کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہوئی ہے، ماہرین کے مطابق پاکستان ہر سال 400ارب روپے کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے جو ملکی معیشت پر نہ صرف بہت بڑا بوجھ ہے بلکہ پام آئل صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے، اس کے مقابلے میں کینولا آئل صحت کے لیے بہت مفید ہے.
ایوی آل گروپ سٹرٹس سیڈ کے محمد ظفر اقبال نے پریز نٹیشن دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اپنی ضروریات کا صرف 11فیصد خوردنی تیل پیدا کرتا ہے جبکہ 89 فیصد درآمد کرنا پڑتا ہے، پاکستان میں تیل اور گھی کی سالانہ گھپت 44لاکھ ٹن ہے، کینولا پام آئل اور سرسوں کے تیل کے مقابلے میں صحت کےلیے بہت مفید ہے اور ضرورت اس امر کی ہےکہ کسانوں کو کینولا کاشت کرنے کی ترغیب دی جائے.
تاکہ اس سے نہ صرف پاکستان کی خوردنی تیل کی ضروریات پوری ہوں بلکہ اسے برآمد بھی کی جاسکے ،کینولا کی فی ایکٹر پیداوار بھی سرسوں یا رایا کے مقابلے میں بہت زیادہے.
سٹرٹس سیڈ کے مارکیٹنگ ہیڈ غضنفر علی نے بتایا کہ پاکستان میں تیل اور گھی تیار کرنیوالی انڈسٹری کے ساتھ مل کر ملک کے اندر کنیولا کی بڑے پیمانے پر کاشت کی منصوبہ بندی ہے ، مقامی کنیولا پر سیلز ٹیکس 18فیصد ہے جبکہ درآمدی پام آئل پر صرف 4فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ہے.
ضرورت اس امر کی ہےکہ مقامی کینولاپر سیلز ٹیکس کم کرے درآمدی پام آئل پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا جائے ، حکومت کینولاکی کاشت پر کاشتکاروں کو پانچ ہزار فی ایکٹر سبسڈی بھی فراہم کرتی ہے.
وزارت نیشنل فوڈ کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹراکمل صدیق نے کہا کہ حکومت کی پالیسی ہےکہ گھی اور خوردنی تیل کی تیاری میں پام آئل کی مقدار کو 65فیصد استعمال کیا جائے ، جبکہ دیگر معیار ی تیل 35فیصد استعمال کیاجائے