بیجنگ (لاہورنامہ) چین کی ریاستی کونسل کے انفارمیشن آفس نے”امریکہ میں 2023 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ” جاری کی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
2023 میں امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتحال بدستور ابتر رہی۔ امریکہ میں انسانی حقوق پولرائزنگ سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے غالب ایک قلیل طبقے کی نسبت ، عام لوگ کی اکثریت پسماندگی کا شکار ہے ، اور انہیں بنیادی حقوق اور آزادیاں حاصل نہیں ہیں۔
گن وائلنس ایک دائمی مرض ہے اور حکومت کی کنٹرول پالیسیاں غیر موثر ہیں۔ 2023 میں امریکہ میں کم از کم 654 بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ گن وائلنس سے تقریباً 43,000 لوگ ہلاک ہوئے، اوسطاً یومیہ 117 ہلاکتیں ہوئیں۔
متعصب پولرائزیشن اور مفاد پرست گروہوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ریاستوں نےمعاشرے میں اسلحہ رکھنے کے حقوق اور قانون سازی کو فروغ دیا ہے ۔ 2023 میں، امریکہ کی کم از کم 27 ریاستوں میں پستول رکھنے کے لیے کسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے۔
حکومت شہریوں کی پرائیویسی پر نظر رکھنے کے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتی ہے، اور اظہار رائے کی آزادی کو دبایا جاتا ہے۔ ایف بی آئی نے بیرونی انٹیلی جنس سرویلنس ایکٹ کے سیکشن 702 کا اطلاق گھریلو نگرانی کے لیے بھی کیا ہے ،
کانگریس ارکان ، کانگریس کی مہم کے عطیہ دہندگان، اور نسل پرستی کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے مواصلاتی رابطوں کی "وسیع اور مسلسل” نگرانی کی گئی۔ زیادہ سے زیادہ ریاستیں سرکاری اسکولوں میں ایسے تعلیمی مواد اور کتابوں کے استعمال پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی کر رہی ہیں.
جو نسل، تاریخ اور جنس جیسے مخصوص موضوعات کو چھوتی ہیں۔ امریکی کالج کیمپس میں، تدریسی اسٹاف اور عملے کو اظہار خیال پر سزا یا برطرف کیے جانے کی تعداد 20 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔
پولیس تشدد سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بدستور زیادہ ہے، اور قانون نافذ کرنے والوں کے لیے پولیس احتساب کا
نظام غیر موثر ہے۔ امریکی پولیس نے 2023 میں کم از کم 1,247 افراد کو ہلاک کیا، اور اوسطاً کم از کم 3 افراد یومیہ پولیس کے ہاتھوں مارے گئے۔
پولیس کے داخلی امور کے ادارے اکثر نامناسب سلوک کی تحقیقات کرنے کے بجائے ساتھیوں کو بری کروانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، جس سے پولیس کو جوابد ٹھہرانا مشکل ہو جاتا ہے۔انسداد امراض مرکز کے ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار کے سرکاری ڈیٹا بیس میں پولیس کے ہاتھوں نصف سے زائد ہلاکتوں کو "عام قتل یا خودکشی” کا لیبل دیا گیا ہے۔
ملک میں بڑے پیمانے پر قید اور جبری مشقت کے مسائل نمایاں ہیں، جو اسے ایک "قید خانہ ریاست” دکھاتے ہیں۔ امریکہ میں دنیا کی 5 فیصد سے بھی کم آبادی ہے، لیکن یہ دنیا میں 25 فیصد قیدیوں کا گھر ہے۔ملک میں شرح قید اور قیدیوں کی تعداد دونوں دنیا میں سرفہرست ہیں۔
جیلیں قیدیوں کو کم اجرت یا بغیر اجرت اور بنا کسی مراعات کے کام کرنے پر مجبور کرتی ہیں، جس سے ہر سال اربوں ڈالر مالیت کی مصنوعات اور خدمات سامنے آتی ہیں۔
امریکی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش تیز ہوتی جا رہی ہے، اور انتخابات میں مختلف طریقوں سے جوڑ توڑ کیا جاتا ہے۔ 118 ویں امریکی کانگریس نے ایوان نمائندگان میں دو مرتبہ ” اسپیکر انتخاب” کا تماشہ کیا۔ 2023 میں کانگریس کی قانون سازی کی کارکردگی ، امریکی خانہ جنگی کے بعد کم ترین سطح پر تھی۔
دونوں جماعتیں مختلف طریقوں سے انتخابی حلقوں کی دوبارہ تقسیم میں ہیرا پھیری کرتی رہیں، ذاتی فائدے کے لیے رائے عامہ کے اظہار کو مسخ کیا گیا ۔ ایسی 16 ریاستیں ہیں جن کے کانگریسی اضلاع کی ترتیب میں واضح ہیرا پھیری کی گئی ہے،
اور ان میں سے 12 "ریاستیں وہ ہیں جنہوں نے مجموعی طور پر اپنے اضلاع میں سنگین ہیرا پھیری کی ہے۔” امریکہ میں عام لوگوں کی اکثریت وفاقی حکومت اور تمام سطحوں کی حکومتوں اور سیاست سے انتہائی مایوس ہے۔ 76 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک غلط سمت میں چل رہا ہے۔
نسلی اقلیتوں کو منظم نسلی امتیاز کا سامنا ہے، اور نسل پرستی کے مرض کے بہت سنگین اثرات ہیں۔ سفید فام افراد کے مقابلے افریقی النسل امریکیوں کا پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کا امکان تین گنا زیادہ ہے اور سفید فام لوگوں کے مقابلے میں حراست میں لیے جانے کا امکان 4.5 گنا زائد ہے۔
تقریباً تین چوتھائی چینی نژاد امریکیوں نے پچھلے سال نسلی امتیاز کا سامنا کیا ہے، اور 55 فیصد چینی نژاد امریکی نفرت پر مبنی جرائم یا ہراساں کیے جانے کے بارے میں فکر مند ہیں جو ان کی ذاتی حفاظت کو لاحق خطرہ ہیں۔ امریکی آبائی باشندے ہمیشہ ثقافتی جبر کے تحت رہتے آئے ہیں.
اور ان کے مذہبی عقائد اور روایتی رسوم و رواج کو بے رحمی سے دبا دیا گیا ہے۔ نسل پرستانہ نظریہ امریکہ میں بری طرح پھیل گیا ہے اور سرحدوں کے پار بھی پھیل چکا ہے۔
معاشی اور سماجی عدم مساوات روز بروز بڑھ رہی ہے اور نچلے طبقے کے لوگ مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکہ نے ہمیشہ "اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے "کی توثیق سے انکار کیا ہے۔ غریبوں کا استحصال کرنے، امیروں کو سبسڈی دینے اور طبقات کو الگ کرنے کے ادارہ جاتی ڈیزائن کے زیر اثر، امریکہ میں امیر اور غریب کے درمیان فرق 1929 کے بڑے اقتصادی بحران کے بعد سے سنگین ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
ساختی غربت میں پھنسے "محنت کش طبقے” کے پاس مساوی مواقع کی دستیابی اور آگے بڑھنے کے راستے ، دونوں کا فقدان ہے۔ بے گھر افراد کی تعداد 650,000 سے تجاوز کر گئی ہے، جو کہ 2007 کے بعد سے ایک نئی بلند ترین سطح ہے۔ منشیات کا استعمال بدستور پھیلتا جا رہا ہے۔ خودکشی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔
امریکہ نے ابھی تک اقوام متحدہ کے ” خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کنونشن” کی توثیق نہیں کی ہے، اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس نے "بچوں کے حقوق کے کنونشن” کی توثیق نہیں کی ہے۔
امریکی آئین اب تک صنفی امتیاز کی ممانعت نہیں کرتا، اور یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو بچوں کو بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا دیتا ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں امریکہ میں زچگی سے ہونے والی اموات کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے، اور بچے پیدا کرنے کی عمر کی 2.2 ملین سے زیادہ امریکی خواتین کو زچگی کی دیکھ بھال تک رسائی نہیں ہے۔
کم از کم 21 ریاستوں میں اسقاط حمل کی ممانٰعت یا سخت پابندی عائد کرنے کے احکامات ہیں۔ ہر سال تقریباً 54,000 خواتین حمل سے متعلق امتیازی سلوک کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔لاکھوں بچوں کو طبی انشورنس فوائد سے محروم کیا جا رہا ہے۔فاسٹر کیئرز میں ہر سال ہزاروں بچے لاپتہ ہو جاتے ہیں، اور آڈٹ سے پتا چلا کہ 46 ریاستوں میں ایسے تقریباً 34,800 لاپتہ بچوں کے واقعات درج ہی نہیں کیے گئے ہیں۔
سرحدی علاقوں میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور تارکین وطن کی المناک حالتِ زار حیران کن ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے امریکی جنوبی سرحد کو دنیا کے سب سے مہلک اوورلینڈ ہجرت کے راستے کے طور پر درج کیا ہے۔
30 ستمبر 2023 تک گزشتہ بارہ ماہ میں صرف ایل پاسو بارڈر پیٹرول سیکٹر میں 149 تارکین وطن ہلاک ہوئے۔ مالی سال 2023 میں، امریکی جنوبی سرحد پر گرفتار یا ملک بدر کیے جانے والے تارکین وطن کی کل تعداد 2.4 ملین سے زیادہ رہی، جو ایک ریکارڈ بلند تعداد ہے۔
ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو تشدد اور دیگر غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سرحدی پالیسیاں انسانی اسمگلنگ کو بڑھاوا دیتی ہیں اور جدید غلامی کو فروغ دیتی ہیں، مہاجر بچوں کو وحشیانہ جبری مشقت اور استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
امریکہ نے طویل عرصے سے تسلط پسندی، یکطرفہ پسندی اور طاقت کی سیاست کی پیروی کی ہے، جس سے انسانی بحران جنم لے رہے ہیں۔”نائن الیون” واقعے کے بعد، وہ جنگی زون جہاں امریکہ نے اپنی بیرون ملک "انسداد دہشت گردی” جنگ چلائی تھی، وہاں کم از کم 4.5 ملین سے 4.7 ملین افراد ہلاک ہوئے۔
امریکی فوج نے ایک درجن سے زائد ممالک میں "غیر ملکی ایجنٹ پروگرام” چلائے، جنہوں نے دوسرے ممالک کی خودمختاری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ۔ امریکہ تنازعات سے دوچار علاقوں میں ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بے گناہ شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والی گوانتاناموبے جیل آج بھی چل رہی ہے۔ امریکہ نے طویل عرصے سے یکطرفہ پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، پابندیوں کی تعداد دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، جس کے سنگین انسانی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
امریکہ میں موجود انسانی حقوق کے مختلف مسائل نے جہاں ایک مخصوص طبقے کو مراعات پہنچاتے ہوئے ملک میں بنیادی انسانی حقوق کو کمزور کیا ہے، وہاں یہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے مقصد کی صحت مند ترقی کے لیے بھی سنگین خطرہ اور رکاوٹ ہیں۔