وزیرستان میں طالبان کی کارروائیاں ہوں یا فوج کا آپریشن اس میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد تھے یا پھر عام شہری دونوں صورتوں میں پیچھے رہ جانے والے خاندانوں میں جن کے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں وہ معصوم بچے ہیں جو یتیم ہوئے یا پھر یتیمی کی حالت میں ہی انھوں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔
میر علی کا گولڈن ایرو پاکستان سویٹ ہوم ایسے ہی کچھ بچوں کا گھر ہے۔ گذشتہ پانچ ماہ سے یہاں موجود 150 بچے والد کے سائے سے تو محروم ہیں ہی لیکن کچھ تو ایسے ہیں جن کی والدہ بھی حیات نہیں۔
تاہم گولڈن ایرو پاکستان سویٹ ہوم کی کہانی ملک کے دیگر 36 سویٹ ہومز سے کچھ مختلف ہے۔
پاکستانی فوج نے وزیرستان کے یتیم بچوں کی کفالت کے لیے 2018 میں پاکستان سویٹ ہوم کے سربراہ زمرد خان سے رابطہ کیا اور انھیں میر علی میں بھی سویٹ ہوم کھولنے کی پیشکش کی تھی۔
زمرد خان کہتے ہیں کہ ’اس علاقے میں جانا کسی چیلینج سے کم نہیں تھا۔ میں پاکستانی فوج کے ہمراہ دوردراز سرحدی علاقوں میں بھی گیا۔ فوج نے پھر ہمیں وہاں سویٹ ہوم کے لیے عمارت دی، سکیورٹی دی اور میڈیکل کی سہولت بھی دی گئی ہے۔‘
سویٹ ہوم کی منتظم فرزانہ ریاض کا کہنا ہے کہ اس یتیم خانے میں داخلے کے وقت بچے کے خاندان اور اس کے ماضی کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔
ان کے مطابق ’ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بچے کے والد کی موت کی وجہ کیا بنی اور وہ کیا کرتے تھے۔ یہ معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ہم لوگ جو بچے لیتے ہیں اس کا صرف ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ یہ صرف یتیم بچے ہیں۔‘
فرزانہ ریاض کا کہنا تھا کہ ’انھیں ہم نے ایک مستقبل دینا ہے وہ جس کسی کے بھی بچے ہوں۔‘
تاہم بچوں کو اس یتیم خانے میں داخلے کے لیے یہاں کے دستور کے مطابق علاقے کے ملک سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
فرزانہ نے بتایا کہ ‘ان کا اپنا لیٹر ہوتا ہے۔ ملک کی طرف سے جب ہمیں اجازت ملتی ہے کہ یہ یتیم بچے ہیں ان کا کوئی نہیں ہے باپ فوت ہو جائے تب ہم ان کو لیتے ہیں۔’
ان کے مطابق سویٹ ہوم میں قیام پذیر بچے اب اس جگہ سے مانوس ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق ’صرف ایک بچہ ایسا ہے جسے ابتدا میں یہاں رہنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ وہ خوف کا شکار اور کم گو لگتا تھا لیکن اب وہ بھی ٹھیک ہے‘۔
اس یتیم خانے میں چار سے آٹھ برس کے درمیانی عمر کے بچوں کو رکھا گیا ہے جن کے لیے ادارے میں نصابی، ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔
ان بچوں کے لیے اساتذہ اور چھوٹے بچوں کے لیے کیئر ٹیکر بھی موجود ہیں۔ کمپیوٹر پر پینٹگ میں مصروف جماعت چہارم کے ایک طالبعلم کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں بہت خوش ہیں۔ پڑھتے بھی ہیں اور کھیلتے بھی ہیں۔
فرزانہ کے مطابق یہ بچے اختتامِ ہفتہ پر یا پھر سالانہ چھٹیوں میں اپنے گھر جاتے ہیں اور ان کے خاندان والوں کو بھی ان سے ملنے کی اجازت ہے۔
میر علی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور بچے کا کہنا تھا کہ ’میں امی سے ملنے گھر بھی جاتا ہوں اور یہاں پڑھنے میں مزہ آتا ہے، اچھا لگتا ہے‘۔
سویٹ ہوم کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں غربت کی وجہ سے والد کی غیرموجودگی میں اکیلی ماں کے لیے بچوں کو پالنا آسان نہیں اور ‘جو مدد یہاں ان کو مل رہی ہے اس کی وجہ سے ان کی مائیں بہت زیادہ خوش ہیں‘۔
فرزانہ کا کہنا تھا کہ ’یہاں ہمارے تین بچے ایسے ہیں جن کی ماں پہاڑ پر ایک خیمے میں رہتی ہے۔ یہ علاقہ خدی کہلاتا ہے۔ تو آپ خود سوچیں کہ اس خیمے میں کتنی سردی ہو گی، کتنی گرمی ہوگی۔ وہ تو کہتی ہے کہ یہ تو اس دنیا میں جنت ہے ہمارے لیے‘۔
سویٹ ہوم کی انتظامیہ کے مطابق اب علاقے میں یتیم بچیوں کے لیے بھی ایسا منصوبہ شروع کرنے پر مشاورت کی جا رہی ہے تاکہ انھیں بھی تعلیم کی سہولت اور تحفظ مل سکے جبکہ اسی قسم کے سویٹ ہومز شمالی وزیرستان کے دیگر علاقوں اور جنوبی وزیرستان میں بنانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔