آن لائن ہراساں کرنے کے خلاف فیس بک کی کوششوں میں اضافہ

لاہور(ویب ڈیسک): معروف سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک نے پاکستان سمیت 5 ممالک کے ماہرین کے ساتھ شراکت داری کرتے ہوئے بغیر اجازت کے نامناسب تصاویر اپ لوڈ یا شیئر کرنے والے صارفین کو بلاک کے نئے اقدامات کا اعلان کردیا۔

رپورٹ کے مطابق ’کسی کی نامناسب تصاویر اس کی اجازت کے بغیر شیئر کرنا نقصان دہ ہے، ہم ان کی مدد کے لیے کچھ اور کرنا چاہتے ہیں‘۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی جانب سے جاری ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جب ڈیٹا کا غلط استعمال اور آن لائن ہراساں کرنے کے کیسز کی بات کی جائے تو فیس بک اور واٹس ایپ کا بدترین ٹریک ریکارڈ ہے۔

اس بارے میں متاثرہ فرد کی مدد کے حوالے سے فیس بک عہدیدار کا کہنا تھا کہ متاثرین کے ساتھ مشاورت کے بعد معاون تنظیموں اور ماہرین نے بغیر اجازت کے نامناسب تصاویر کی شیئرنگ اور اس کا جائزہ لینے کی ٹولز کو بہتر کرنے کا فیصلہ کیا۔

رپورٹنگ کی خلاف ورزی
سب سے پہلے پلیٹ فارم کی جانب سے پتہ لگانے والی ایک نئی ٹیکنالوجی کا اعلان کیا گیا، جو فیس بک اور انسٹاگرام پر بغیر اجازت کے شیئر ہونے والی تقریباً عریاں تصاویر یا ویڈیو کا پتہ لگا سکے گی۔

واضح رہے کہ اس وقت فیس بک اور انسٹاگرام پر موجود صارفین خود سے نامنساب تصاویر کو رپورٹ کرسکتے ہیں۔

فیس بک کا کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے رپورٹ کرنے سے قبل ہم اس مواد کو تلاش کرسکتے ہیں، یہ دو وجوہات کے لیے اہم ہے ، اکثر متاثرین بدلے سے ڈرتے ہیں لہٰذا وہ خود سے اس مواد کو رپورٹ نہیں کرتے یا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ مواد کو شیئر کیا گیا‘۔

اس طریقہ کار کے کام کرنے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فیسل بک کے نمائندے کا کہنا تھاکہ ٹیکنالوجی کی جانب سے تلاش کیے جانے مواد کا خصوصی تربیت یافتہ ٹیم کے اراکین کی جانب سے جائزہ لیا جائے گا اور اگر تصویر یا ویڈیوز پلیٹ فارم کے کمیونٹی اسٹینڈرڈ کی خلاف وزری کرتی ہوئی تو اسے ہٹا دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر کیسز میں ہم بغیر اجازت کے نامناسب مواد شیئر کرنے والے اکاؤنٹ کو غیر فعال بھی کردیں گے اور اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ ہم نے غلطی کی ہے تو ہم اپیل کی بھی پیش کش کرتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ فیس بک کو نامناسب پوسٹس کے طویل عرصے تک پلیٹ فارم پر رہنے، ان کے معیار پر پورا نہ اترنے والے مواد کو نہ ہٹانے اور کبھی کبھار ثقافتی اقدار کی خلاف ورزی کرنے پر سخت تنقید کا سامنا رہتا ہے۔

اس تنقید پر جواب دیتے ہوئے فیس بک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ٹیکنالوجی 2 چیزوں کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتی ہے، آیا شیئر کی گئی تصاویر یا ویڈیو کا مواد عریاں یا نیم عریاں ہوں، یا پھر تصویر یا ویڈیو انتقامی انداز میں شیئر کی گئی ہو، یہ ٹیکنالوجی زبان کے پیٹرن اور (کیپشن میں) مخصوص الفاظ کی نشاندہی کرے گی کہ آیا شیئر کی گئی تصویر یا ویڈیو بغیر اجازت کے تو نہیں۔

پاکستان کے معاملے میں عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ پلیٹ فارم کی جانب سے اردو میں جملوں اور ایسے الفاظ کی فہرست شامل کی گئی ہے، اس طرح کے مواد کا جائزہ لینے والا کمیوٹی معیار کی خلاف ورزی پر کسی بھی مواد کو ہٹا سکتا ہے۔

متاثرین کے لیے محفوظ جگہ
اس نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ فیس بک کا کہنا تھا کہ وہ ’میری رضا مندی کے بغیر‘ کے نام سے ایک نیا حب بھی شروع کرے گا، جہاں متاثرین ان کی مدد کے لیے موجود تنظیموں اور وسائل کو تلاش کرسکتے ہیں، ساتھ ہی پلیٹ فارم سے مواد ہٹانے اور اسے دوبارہ شیئر ہونے سے روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات بھی اٹھائے جاسکیں گے۔

اس تناظر میں رپورٹنگ کو مزید ثقافت اور متاثرین کے وسائل سے متعلق بنانے کے لیے فیس بک کی جانب سے متاثری کی مدد کرنے والی تنظیموں ریوینج پورن ہیلپ لائن (برطانیہ)، سائبر سول رائٹس انیشی ایٹو (امریکا)، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (پاکستان) سافرنیٹ (برازیل) اور پروفیسر لی جفی یون (جنوبی کوریا) سے اشتراک کیا ہے۔