پیٹ میں کیڑے ایک عام مرض ہے جو اکثر بچوں میں پائے جاتے ہیں مگر بڑے بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کا موسم پیٹ میں ان کیڑوں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے اور یہ آلودہ پانی پیینے، بغیر دھوئے پھل یا سبزیاں کھانے اور غیر معیاری مشروب پینے سے انسانی جسم کا حصہ بن سکتے ہیں۔
وجوہات
پیٹ میں کیڑوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے ادھ کچا گوشت کھانا، آلودہ پانی پینا، آلودہ مٹٰ، پانی، فضلہ یا ایسے مواد جسم پر لگ جانا اور صفائی کا خیال نہ رکھنا وغیرہ۔
اس حوالے سے کچھ مخصوص عناصر ان کیڑوں کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھاتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :
عمر : بچے اور بزرگ افراد میں ان کیڑوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ ان کا کمزور جسمانی مدافعتی نظام ہے۔
ایسے علاقوں میں رہنا جہاں صفائی ستھرائی کا نظام ناقص ہو اور پاکستان میں اس کے عام ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
علامات
اکثر اس کی علامات اتنی عام ہوتی ہیں کہ لوگ توجہ بھی نہیں دیتے، یا انہیں پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں، تاہم عام طور پر درج ذیل علامات نظر آتی ہیں۔
ہر وقت بھوک لگنا۔
جوڑوں کی اکڑن یا سوجن۔
یاداشت کے مسائل۔
سانس کے مسائل۔
خارش، خصوصاً منہ، ناک اور پیٹ کے ارگرد۔
مسوڑوں میں خون۔
جلدی امراض جیسے السر، زخم، چنبل وغیرہ۔
پل پل مزاج بدلنا۔
سردرد۔
کھانے کی خواہش ختم ہوجانا۔
فوڈ الرجی۔
جنک اور میٹھے پکوانوں کی خواہش بڑھ جانا۔
ہر وقت نظام ہاضمہ کے مسائل۔
خون کی کمی۔
علاج کیا ہے؟
اگر یہ علامات نظر آئیں تو سب سے پہلے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہی سب سے بہتر حکمت عملی ہے، گھریلو ٹوٹکے بھی اس حوالے سے آزمائے جاسکتے ہیں، مگر ڈاکٹر کو ترجیح دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے، ویسے اس حوالے سے چند گھریلو ٹوٹکے درج ذیل ہیں۔
تازہ لہسن
ادرک اس طرح کے کیڑوں کو نکال باہر کرنے کے لیے موثر ترین چیزوں میں سے ایک ہے، اگر ادرک کا ذائقہ کڑوا محسوس ہو تو اس کا عرق نکال لیں یا پیس لیں، ایک ٹکڑے سے آغاز کریں اور بتدریج مقدار بڑھالیں۔
کھیرے کے بیج
غذائی نالی سے ٹیپ وارم کو نکالنے کے لیے کھیرے کے بیج بھی موثر ثابت ہوسکتے ہیں، ان بیجوں کا سفوف ان کیڑوں کے انفیکشن سے بچاﺅ اور ٹیپ وارم سے نجات کا کام کرتا ہے۔ ان بیجوں کو پیس لیں اور روزانہ ایک چائے کا چمچ استعمال کریں۔
لونگ
لونگ میں موجود اجزاءجراثیم کش خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں جو دوران خون اس کے ذریعے کیڑوں اور ان کے انڈوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔
سیب کا سرکہ
سیب کا سرکہ معدے میں ہائیڈروجن کا تناسب معمول پر لاتا ہے جبکہ پیٹ کے کیڑوں کو مار کر صحت بحال کرسکتا ہے، اسے استعمال کرنے کے لیے ایک کھانے کا چمچ سیب کا سرکہ ایک گلاس گرم پانی میںملائیں اور پھر اس میں شہد کا اضافہ کرکے پی لیں۔ یہ مشروب روزانہ ایک سے 2 مرتبہ پینا زیادہ جلد نتائج کے حصول میں مدد دے سکتا ہے۔
ناریل کا تیل
ایک کھانے کا چمچ خالص ناریل کا تیل پی لیں یا اپنے کھانوں میں شامل کریں ، اس کے علاوہ آپ خشک ناریل بھی کھا کر پیٹ کے کیڑوں کو ختم کرنے کا عمل تیز کرسکتے ہیں۔ دن میں ایک بار اس تیل یا ناریل کا استعمال کرنا حالت میں جلد بہتری لاتا ہے۔
کیسٹر آئل
ایک کھانے کا چمچ خالص کیسٹر آئل ایک کپ گرم پانی میں مکس کریں اور آرام آرام سے پی لیں۔ یہ مشروب چند دن تک روزانہ پینا پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے، کیونکہ کیسٹر آئل جلاب کش خصوصیات رکھتا ہے جو کہ زہریلے مواد اور کیڑوں کو آنتوں سے نکلنے پر مجبور کردیتا ہے۔
ہلدی
ایک چائے کا چمچ ہلدی پاﺅڈر ایک گلاس گرم دودھ میں ملائیں، اسے اچھی طرح مکس کریں اور پھر پی لیں۔ اس مشروب کو روزانہ ایک یا 2 بار چند دن تک استعمال کریں، ہلدی میں موجود اجزا پیٹ کے کیڑوں کو جسم سے نکالنے میں مدد دیتے ہیں۔
پپیتا
پپیتے کے بیج بھی پیٹ کے کیڑوں سے نجات کے لیے فائدہ مند ہیں جو کہ نظام ہاضمہ بھی بہتر کرتے ہیں۔ ان کو استعمال کرنے کے لیے ایک کھانے کا چمچ پپیتے کے بیج، آدھا کپ پپیتا اور ایک کپ ناریل کا دودھ لیں۔ ان سب چیزوں کو بلینڈر میں ڈال کر پیس لیں اور اس مکسچر کو استعمال کرلیں۔
ادرک
ادرک نظام ہاضمہ کے لیے بہترین مانا جاتا ہے اور یہ پیٹ کے کیڑوں جیسے راﺅنڈ وارمز اور دیگر کا بھی خاتمہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے، اس کے لیے ایک سے 2 انچ کدوکش ادرک لیں اور اسے ایک کپ پانی میں ڈال دیں، اس کے بعد اسے برتن میں ڈال کر 5 منٹ تک ابالیں۔ اس کے بعد چھان کر کچھ ٹھنڈا ہونے دیں اور نیم گرم پی لیں۔ یہ مشروب دن میں 3 سے 4 بار پینا عادت بنائیں۔
دار چینی
دار چینی آنتوں کا درجہ حرارت بڑھا کر ان کیڑوں کے لیے زندہ رہنا مشکل بنادیتی ہے، یہ نظام ہاضمہ بہتر بناکر بھی ان کیڑوں کے اخراج کو آسان بناتی ہے۔ آدھا چائے کا چمچ دارچینی کا پاﺅڈر ایک گلاس گرم پانی میں اچھی طرح مکس کریں، ذائقے کے لیے شہد کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں اور اس پی لیں۔ اسے کچھ دن تک روزانہ کم از کم 3 بار پینا عادت بنانا اس مسئلے سے نجات میں مدد دے سکتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔