کائنات کے

سائنسدان کائنات کے بڑے راز بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب

سائنسدان پہلی بار کائنات کے ایک بڑے راز بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو ایک دور دراز واقع کہکشاں میں موجود تھا۔

یہ بلیک ہول 40 ارب کلومیٹر کے حجم کا تھا یعنی زمین سے تین گنا بڑا جبکہ سائنسدانوں نے اسے عفریت قرار دیا ہے۔

یہ بلیک ہول زمین سے 500 ملین ٹریلین کلومیٹر دور واقع تھا اور اس کی تصویر دنیا بھر سے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ (ای ایچ ٹی) نامی 8 ریڈیو دوربینوں کے ایک نیٹ ورک نے لی جس کے لیے 200 سے زائد سائنسدانوں نے مل کر کام کیا۔

یہ پہلی بار ہے کہ سائنسدان کسی بلیک ہول کی تصویر لینے میں کامیاب ہوسکے جس سے کائنات کے اس راز کو سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

اس تصویر میں مادے کا ایک ہالا دکھائی دے رہا ہے جو بلیک ہول کے گرد دائرے کی شکل میں ہے. جبکہ ہالے کے درمیان سیاہ چیز بلیک ہول ہے۔

بلیک ہول اپنی شدید کشش ثقل کی وجہ سے جب ستاروں کو نگلتا ہے تو ستاروں کے ان ٹکڑوں میں رگڑ کی وجہ سے شدید دباؤ پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ریڈیو لہریں نکلتی ہے. اور یہی لہریں ای ایچ ٹی نے ڈٹیکٹ کیں.

ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ کے ڈائریکٹر اور ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق نے اس بارے میں بتایا کہ بلیک ہول ہماری کائنات کے چند پراسرار ترین چیزوں میں سے ایک ہیں، اور ہم وہ دیکھ رہے ہیں جس کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ اسے دیکھنا ممکن نہیں، ہم نے بلیک ہول کی ایک تصویر لے لی ہے۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے نیدرلینڈ کی راڈبوڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہینو فلیکی نے بتایا کہ یہ بلیک ہول ایک کہکشاں ایم 87 میں واقع ہے اور ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے پورے نظام شمسی کے حجم سے بھی بڑا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے خیال میں اس وقت کائنات میں موجود چند سب سے بھاری بلیک ہولز میں سے ایک ہے جو کسی عفریت سے کم نہیں یا یوں کہہ لیں کائنات کے بلیک ہول کا ہیوی ویٹ چیمپئن ہے۔

خیال رہے کہ کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کردیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کردیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا۔

بلیک ہول میں تھوڑی جگہ پر انتہائی زیادہ مادے کی وجہ سے اس کی کشش اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ روشنی، جو اب تک کی تحقیقات کے اعتبار سے اس کائنات کی سب سے تیز ترین چیز ہے، بھی اس سے فرار نہیں ہوسکتی۔