اسلام آباد (این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے موجودہ ملکی مسائل کا حل نئے انتخابات قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ حکومت اوروزیراعظم کی ناکامی کے بعد بی ٹیم لائی گئی ہے ،
آنے والوں کی جارحانہ پالیسیاں زیادہ دور نہیں جائیں گی،چھ ادارے ملکی اقتدار میں حصہ دار ہیں بیٹھ کر فیصلہ کرلیں،پرویزمشرف کی گریجویشن کی پابندی سے بدترین لوگ اسمبلی میں آئے اور قابل سیاستدان باہر نکل گئے، گرفتاری کاخوف نہیں۔
ایک انٹرویومیں سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملکی مسائل کا حل نئے انتخابات ہیں، یہ میری ذاتی رائے ہے، ہر سیاسی شعور رکھنے والا یہی حل سمجھتا ہے۔
الیکشن کرانے سے عدم استحکام آئےگا لیکن اس کا نقصان اس سے کم ہوگا جو الیکشن نہ کرانے سے ہو گا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اور یہ وزیراعظم ناکام ہوچکے ہیں، اس لیے بی ٹیم لائی گئی ہے۔ ابتداءوالے ناکام ہوگئے ہیں، آنے والوں کی جارحانہ پالیسیاں زیادہ دور نہیں جائیں گی۔انہوںنے کہاکہ ہم آج تک ملک کو ایک بھی شفاف الیکشن نہ دے سکے، غیرشفاف اور غیرمتنازعہ الیکشن جمہوریت کی بنیاد ہیں۔
انہوںنے کہاکہ ملک آئین اورقانون کے تحت نہیں چلتا اس لیے افراتفری ہے، چھ ادارے ملکی اقتدار میں حصہ دار ہیں وہ بیٹھ کر فیصلہ کرلیں۔شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ نیب ایک کالا اوراندھا قانون ہے، آمر نے اسے سیاستدانوں کو توڑنے کےلئے بنایا، آج بھی سیاسی بدعنوانی کےلئے استعمال ہو رہا ہے۔
انہوںنے کہاکہ ملک کی خاطر نیب کو ختم کردیں، یہ لکھ لیں کہ اس کا اطلاق مسلم لیگ ن پر ہو گا۔انہوں نے اپنے دور میں اس قانون میں اصلاحات سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نیب قانون کو ہاتھ لگاتے تو عدالت نے اسے ختم کردینا تھا، یہ قانون صرف تمام جماعتوں کی مشاورت سے ختم ہوسکتا ہے، اگر یہ اچھا قانون ہے تو اس کا اطلاق ججوں اور جرنیلوں پر بھی کریں۔
انہوں نے بتایا کہ نیب قانون میں ترمیم پر بات ہوئی، پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف نے اتفاق بھی کیا تاہم پانامہ کے آنے سے یہ دونوں جماعتیں پیچھے ہٹ گئیں۔سابق وزیراعظم نے اپنے خلاف مقدمات کے حوالے سے کہا کہ میرے خلاف چھ مقدمات ہیں، اگر سیاسی سسرگرمیاں ترک کر کے گھر بیٹھ جاو¿ں تو میرا نام نہ ای سی ایل پر ہو گا اور نہ ہی نیب کا کیس ہو گا۔
انہوںنے کہاکہ میں نے اپنا ضمیر نہیں بیچا اس لیے 20 سال سے نیب کا سامنا کر رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریسی میں بھی بدعنوانی موجود ہے تاہم نام صرف سیاستدانوں کا آتا ہے، اس پرسزا صرف نوازشریف کو ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے موبائل کارڈ پرٹیکس سے متعلق فیصلہ دیا اس سے ملک کو 125 ارب روپے کا نقصان ہوا، یہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔شاہدخاقان عباسی نے کہاکہ 2018 کا الیکشن غیرشفاف اور متنازعہ تھا جس کے بعد حکومت بھی متنازعہ بنی، چور دروازے سے آئی حکومت نہیں چلتی، آٹھ ماہ میں یہ ناکام ہوگئی ہے، مہنگائی بڑھ گئی ہے،وہ معاشی ٹیم جو فیصلے کرتی تھی اسے نکال دیا گیا ہے۔
انہوںنے کہاکہ پیپلزپارٹی معیشت کو بہت نیچے لے گئی جیسے ہم نے سنبھالا، ان آٹھ ماہ میں معیشت نیچے چلی گئی ہے، پیپلزپارٹی والے افراد واپس آچکے ہیں۔مسلم لیگ (ن )کے رہنما نے کہا کہ عوام جس کا انتخاب کریں گے پارلیمنٹ میں وہی ہوں گے، وہاں ہرطبقے کی نمائندگی موجود ہے، اگر اشرافیہ کے لوگ ہی کسی اور طریقے سے وہاں پہنچ جائیں تو یہ اشرافیہ کا کلب بن جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پرویزمشرف کی گریجویشن کی پابندی سے بدترین لوگ اسمبلی میں آئے اور قابل سیاستدان باہر نکل گئے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ 35 سال کے تجربے کے لوگ ملک میں حکمران رہے، ان کے پاس ہراختیار تھا، کیا اس سے حکومتیں بہتر چلیں؟ پاکستانی عوام پر کبھی فیصلہ نہیں چھوڑا گیا۔انہوںنے کہا کہ حکومتیں مدت پوری کرلیتی ہیں لیکن کیا پاکستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔
ن لیگ کو جہاں 2013 میں پاکستان ملا،2018 میں اس سے بہتر حالت میں ہم نے چھوڑا، توانائی، امن وامان سمیت ہرشعبے میں ہم نے بہتری لائی تھی۔شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ سیاستدان پرالزام لگانا سب سے آسان ہے، کنٹرول میڈیا کے ذریعے نیب بدنام کرتا ہے، یہ حقیقت سالوں بعد پتہ چلتی ہے کہ مقدمہ ہی جھوٹا تھا۔
انہوںنے کہاکہ گرفتاری کاخوف نہیں ہے، سیاستدان کو وہ گرفتار کرتے ہیں جو اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں، اکثر بدعنوان لوگ حکومت میں ملتے ہیں، یہ ماضی میں بھی شامل رہے آج بھی حکومت کا حصہ ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں سب سے بڑی کرپشن ٹیکس چوری ہے، موجودہ کابینہ میں 47 لوگ ہیں ان سے پوچھ لیں کہ یہ سب لوگ کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے کوئی غلطی نہیں کی،ہم نے آئین اورقانون کے مطابق ذمہ داریاں پوری کیں، اقتدارمیں شریک لوگوں کو ملکی مسائل اوران کا حل سمجھانے کی کوشش کی۔ ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا یامحاذآرائی نہیں۔
انہوںنے کہا کہ نوازشریف کو اقامے پرنکالا گیا۔ لوگوں کی سیاسی زندگی سے زیادہ نوازشریف نے اقتداردیکھا، نوازشریف ضدنہیں کرتے لیکن کچھ اصولوں پرکھڑا ہونا پڑتا ہے۔
انہوں نے ملک میں سچائی کمیشن قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔لیگی رہنما نے مریم نوازکے سیاست میں آنے سے متعلق کہا کہ یہ فیصلہ مریم نوازنے کرنا ہے کہ وہ سیاست میں آئیں گی یا نہیں، جب ان کے والد کو نکالا گیا تو وہ مخصوص مقصد کےلئے سیاست میں آئیں، پارٹی اور سیاست میں اپنا مقام بنایا، ان کے پاس کوئی سرکاری یا پارٹی کاعہدہ نہیں رہا۔