لاہور(اے این این ) پاکستانی مصوری کی تاریخ میں پنجاب یونیورسٹی شعبہ فائن آرٹس کا کردار کلیدی رہا ہے ۔ شعبہ فائن آرٹس نے ملک کو نامورمصور اور باصلاحیت اساتذہ دیئے جو اس وقت پاکستان کے نامور اداروں میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ شعبہ فائن آرٹس مصوری کے حوالے سے اپنا انفرادی اسلوب رکھتا ہے جسے ہم پنجاب یونیورسٹی کا دبستان مصوری بھی کہتے ہیں اس دبستان مصوری کا آغاز 1940ءمیں اینامولکا احمد صاحبہ نے کیا تھا اور یہ سفر بتدریج اپنی منزل کی جانب گامزن ہے جو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کی مصوری کے انفرادی اسلوب کے سفر کو یونیورسٹی کالج برائے آرٹ اینڈ ڈیزائن نے مصوری کی نمائش کے ذریعے پیش کیا ہے ۔ اس نمائش کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا حصہ پنجاب ےونےورسٹی کے دبستانِ مصوری کے بانی مصوروں کے فن پاروں پر مشتمل ہے ےہ عرصہ 1940ءسے1960 ءپر محیط ہے جن مےں اےنامولکا احمد، انور افضل، خالد اقبال، نسےم حفےظ قاضی اور کولن ڈےوڈ شامل ہیں، دوسرا حصہ 1960ءسے لے کر 1980ءکے مصورّوں کے کام کی عکاسی کر رہا ہے جبکہ تےسرا حصہ 1990ءسے دورِ جدید کے مصورّوں کے کام پر مشتمل ہے۔
’کینو س اینڈ کولیگز‘کے عنوان سے نمائش کا انعقاد گرینڈ ہال (اولڈ کیمپس) میںہواجس میں پرنسپل کالج برائے آرٹ اینڈ ڈیزائن پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ منظور ، نمائش کی منتظم ڈاکٹر نائلہ عامرکی بھرپور معاون رہیں۔ نمائش کے انعقاد کا مقصد1940ءسے آغاز ہونے والے دبستان مصوری کے بصری سفر کو پلیٹ فارم مہیا کرنا اور آرٹ کے شائقین اور طلبہ کو پاکستانی مصوری کی تاریخ سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔