بجٹ اجلاس

شہباز شریف قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پاکستان میں ہوں گے،شاہد خاقان عباسی

اسلام آباد (صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ہماری پارٹی نے ابھی حکومت کے خلاف اسٹریٹ پریشر کے حوالہ سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا تاہم جب بھی ہم نے ضرورت سمجھی تمام اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

سیاسی جماعتیں ملک کا اثاثہ ہوتی ہیں ، یہ روز نہیں بنتیں ، ان کو توڑنا ملک کے ساتھ غداری ہے، ہم نے ماضی میں بھی یہ کام کئے ہیں اس سے سبق حاصل کریں ، سیاسی جماعتیں ملک کے لئے اور ملک کی سالمیت کے لئے بہت اہم ہیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ بی آر ٹی پشاورکرپشن کی واضح مثال ہے یہ منصوبہ 40 ارب روپے سے شروع ہوا اور 100ارب روپے تک پہنچ گیا ہے اور ختم بھی نہیں ہوا۔ بی آر ٹی صوبائی معاملہ ہے ، نیب موجود ہے، نیب کیوں نہیں پکڑتی، ایف آئی اے کیوں پرچہ درج نہیں کرتی۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم نے کرنا ہے کہ انہوں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرنی ہے یا نہیں کرنی اور یہ فیصلہ آرمی چیف کا ہو گا کہ انہوں نے ایکسٹینشن لینی ہے یا نہیں لینی، یہ ان کے درمیان فیصلہ ہے اور قانون یہی کہتا ہے۔اگر چوہدری نثار علی خان پارٹی کو مس کر رہے ہیں تو پھر پارٹی بھی انہیں مس کر رہی ہو گی تاہم سیاست میں یکطرفہ عشق نہیں ہوتا۔ مریم نواز شریف کی عوام کے دلوں میں اور سیاست میں جگہ ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ میاں محمد شہباز شریف قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پاکستان میں ہوں گے۔ان خیالات کا اظہارشاہد خاقان عباسی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں، اس حکومت سے تنگ ہیں ، ان کی جھوٹی باتوں سے تنگ ہیں اور لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ ان کے پاس حل ہے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک وفاقی وزیر دوائیوں کی 250فیصد قیمتیں بڑھا کر پیسے لے کر بھاگ گیا ہے اس کو کسی نے پوچھا نہیں ہے ، جبکہ ایک وزیر پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات نے الزام لگایا ہے اس نے گیس میں ڈا کہ مارا ہے، اور وزراءہٹائے گئے کیوں ہٹائے گئے کسی کو نہیں پتا،ان کو خود بھی نہیں پتا، آج جو کرپشن ہے اس کی کوئی حد نہیں امیر مقام کے بیٹے پر تو ہو سکتا ہے جس سے کہا تم نے تین کروڑ روپے کا کام غلط کیا ہے ، اس کی 35کروڑ کی گارنٹیاں اسی محکمہ کے پاس اسی اسکیم کے اندر موجود ہیں ، 30، 40کروڑ روپے کے بل ابھی تک پڑے ہوئے ہیں، اس کو پکڑ کر تین دن کے ریمانڈ پر رکھا ہے، یہاں بھی کسی تین دن کے ریمانڈ پر رکھیں پتا تو چلے۔ ان کا کہنا تھا کہ عبدالعلیم خان کے خلاف غلط کیس بنایا گیا، خواجہ سعد رفیق کے خلاف غلط کیس بنایا گیا اور شہباز شریف کے خلاف بھی وہی کیس بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب نے آج تک جو کیا ہے غلط کیا ہے، اس کا کوئی تعلق اس معاملہ سے نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میں نے بطور وزیر اعظم جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ 10ماہ کام کیا ہے ، وہ پروفیشنل آدمی ہیں جو کہ ہر آرمی کا چیف ہوتا ہے اور میرا نہیں خیال کہ وہ کوئی ایکسٹینشن قبول کریں گے، ان کو جانتے ہوئے یہ میری رائے ہے، ان کا جو طرز ہے ، طریقہ ہے ،وہ اپ فرنٹ آدمی ہیں ، سیدھی بات کرتے ہیں ، میں نہیں سمجھتا کہ اگر ان کو آفر ہو بھی تو قبول کریں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حالات پیدا ہو چکے ہیں اور ہمیں بھی لوگوں کے سڑکوں پر آنے کا خطرہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی تنہا جماعت سڑکوں پر آنے کا اعلان نہیں کر سکتی، تمام جماعتیں بیٹھیں گی اور وہ یہ فیصلہ کریں گی کہ ہمارے خیال میں حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب کوئی اور حل نہیں ہے، پارلیمان میں کچھ نہیں ہو رہا، حکومت کام نہیں کر رہی اور عوام تنگ ہیں اور اس سے پہلے کہ عوام خود سڑکوں پر آجائیں ہم ایسا ہونے سے روکیں اور جمہوری عمل کے اندر رہتے ہوئے ، اسٹریٹ پریشر کے زریعہ حکومت کو الیکشن پر مجبور کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک چلانی پڑے گی اور یہ کام مشورہ سے ہوتا ہے اور مشاورت ہمیشہ بہتر ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں ہر شخص آزاد ہوتا ہے جو مرضی کرے، ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ جس نے جماعت بدلی ہے اور اس نے عہدہ جو بھی حاصل کیا ہو، اس نے عزت نہیں کمائی اور جو عزت کے لئے سیاست کرتے ہیں وہ جماعتیں نہیں بدلتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف نے نیب کو استعمال کر کے پوری (ن)لیگ توڑ دی تھی اور یقین کریں ایک ہاتھ کی انگلیوں جتنے لوگ رہ گئے تھے جو بولتے تھے ، دو تہائی اکثریت سے یہ لوگ رہ گئے تھے۔ اس کے بعد پھر پارٹی بن گئی،آج پرویز مشرف کہاں ہیں اور (ن)لیگ کہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد میں کوئی سرکاری گاڑی نہیں لے کر گیا، سیکیورٹی والے میرے پاس آئے کہ آپ کی جان کو شدید خطرہ ہے ، یہ گاڑی استعمال کریں اس کی سابق وزیر اعظم کو اجازت ہے اور ایک سے زیادہ گاڑیاں کی بھی اجازت ہے۔ یہ گاڑیا ں عمران خان کو بھی دی گئیں، میاں محمد نواز شریف کو بھی دی گئیں اور آج بھی سابق وزراءاعظم کے پاس ہیں۔سرکاری گاڑی میرے گھر میں کھڑی ہے اور وہ ایک لیٹر میں تین کلو میٹر فاصلہ طے کرتی ہے اور ایک لیٹر 110روپے کا ہو گیا ہے ، میں نے تو لکھ کر دیا ہے شوق ہے تو واپس لے جائیں، میرے پاس اپنے پیسے سے اس سے بہتر گاڑیاں موجود ہیں۔ میرے ساتھ جو سیکیورٹی کے لوگ ہیں وہ کہتے ہیں جب بھی آپ نکلا کریں سرکاری گاڑی میں جایا کریں لیکن میں نہیں جاتا۔ان کا کہنا تھا کہ نیب کیسز کی حقیقت پورا پاکستان جانتا ہے، 33گاڑیاں تو میں نے دیکھی بھی نہیں۔ مجھے بطور وزیر اعظم گئے ہوئے چار ، چھ ہفتے گزر چکے تھے اور مجھے نگران حکومت نے گاڑی دی تھی۔